منزل عشق قسط 1
منزل عشق قسط 1
"یہ کیا ہے عثمان ملک جواب چاہیے مجھے اسکا۔۔۔۔"
وجدان خان اس وقت عثمان ملک کے ساتھ اس کے آفس میں بیٹھا باتیں کر رہا تھا جب اچانک عشال نے وہاں آکر ایک کاغذ عثمان کی جانب پھینکا اور غصے سے پھنکاری۔
"کیا ہوا عشال؟"
وجدان نے پریشانی سے پوچھا۔
"یہ تو آپ اس شخص سے پوچھیں بھائی کہ کیوں اس نے ایک مظلوم لڑکی ردا کو تیرہ سال سے قید کر رکھا ہے اور یہی نہیں وہ اتنے سالوں سے اسکی قید میں ٹارچر سہہ رہی ہے ۔۔۔۔"
عشال نے مٹھیاں بھینچتے ہوئے کہا اپنی پہلی بیوی کا ذکر سن کر عثمان بہت مشکل سے اپنا غصہ ضبط کئے ہوئے تھا۔
وہ بھلا کیسے بھول سکتا تھا کہ وہ عورت اس کے بچے کی قاتل تھی اور حمنہ کی بھی جان لینے کی پوری کوشش کی تھی اس نے۔اسی لئے تو عثمان نے تیرہ سال سے اسکی زندگی جہنم بنائی ہوئی تھی۔
عثمان اپنی جگہ سے اٹھا اور عشال کے سامنے آیا۔
"میں تمہیں جواب دہ نہیں ہوں وہ عورت میری مجرم ہے جو مرضی کروں میں اس کے ساتھ تم اپنے کام سے کام رکھو۔"
عثمان کے انتہائی زیادہ سفاکی سے کہنے پر عشال نے بغیر سوچے سمجھے اس کا گریبان پکڑا۔
"تمہیں کوئی حق نہیں بنتا کسی پر اس طرح سے ظلم کرنے کا اسے تم میری وارننگ سمجھو اور اسے آزاد کر دو ورنہ تم جانتے نہیں کہ میں کیا کر سکتی ہوں۔"
عشال کو غصے میں دیکھ وجدان آگے بڑھا اور اسے عثمان سے دور کیا۔
"مجھ سے تو تم بھی واقف نہیں ہو لڑکی میرے معاملے سے دور رہو ورنہ تمہاری جان لینے سے پہلے تمہیں وارننگ بھی نہیں دوں گا۔۔۔"
"عثمان۔۔۔!!!"
عثمان کی بات پر وجدان نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اس کا غصہ دور کرنا چاہا۔
"تم دونوں کو اطمینان سے بیٹھ کر بات کرنی چاہیے۔۔"
وجدان نے تاکید کرنا چاہیے جس سے عشال نظرانداز کرتے ہوئے دوبارہ عثمان کے قریب ہوئی تھی۔
"دو دن کا وقت دے رہی ہوں میں تمہیں دو دن میں وہ لڑکی ہوں آزاد ہونی چاہیے ورنہ تمہاری یہ سچائی دنیا کو دیکھا کر تمہارا جو بہترین حکمران والا ایمج ہے نا مٹی میں ملا دوں گی تمہارے خلاف ہر ثبوت ہے میرے پاس یاد رکھنا یہ۔۔۔۔"
عشال اپنی بات کہہ کر وہاں سے جانے لگی۔
"تم چاہے کچھ بھی کر لو اس لڑکی کو نہ میں آزادی دوں گا اور نہ ہی موت اور اگر تم میرے راستے میں آئی تو تمہیں ضرور آزاد کر دوں گا۔۔۔"
عشال ایک پل کو اس کی بات سننے کے لئے رکی اور پھر وہاں سے کوئی جواب دئیے بغیر وہاں سے چلی گئی۔عشال کے جاتے ہی وجدان غصے سے اس کی جانب بڑھا۔
"تمہاری ہمت کیسے ہوئی ملک میری بہن سے اس طرح سے بات کرنے کی؟ اسے دھمکی دینے کی؟"
عثمان کے ہونٹوں پر بس ایک طنزیہ مسکان آئی۔
"میں تمہیں بھی یہی دھمکی دوں گا دوست اپنی بہن کو میرے معاملے سے دور رکھو ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔"
اتنا کہہ کر عثمان وہاں سے جا چکا تھا۔وہ جانتا تھا کے وجدان اس کی دھمکی کو سنجیدگی سے لے گا کیونکہ وہ ملک کو اچھی طرح سے جانتا تھا لیکن ان کی زندگیوں میں آنے والے طوفان سے کوئی بھی باخبر نہیں تھا۔
❤️❤️❤️❤️
اس واقعے کو گزرے دو دن ہو گئے تھے۔وجدان نے عشال کو سمجھانا چاہا تھا کہ وہ عثمان کے معاملے سے دور رہے لیکن عشال نے کبھی کسی کی سنی ہی کہاں تھی۔
لیکن وجدان کو عثمان کی کوئی فکر نہیں تھی کیونکہ وہ جانتا تھا کہ عثمان نے جو کہا تھا وہ محض ایک دھمکی تھی وہ وجدان کا بہت اچھا دوست ہونے کے ساتھ ساتھ زرش کی بہن کا شوہر بھی تھا تو بھلا کیسے وہ عشال کو نقصان پہنچا سکتا تھا۔
"وجدان آپکو پتہ ہے ابھی عشال کا فون آیا وہ ایکسپیکٹ کر رہی ہے میں پھر سے مامی بننے والی ہوں ۔۔۔"
زرش نے کمرے میں داخل ہوتے ہی خوشی سے کہا تو وجدان اپنی سوچوں کو جھٹک کر مسکرا دیا۔
"جانتا ہوں نور خان تم سے پہلے سعد مجھے فون کرکے بتا چکا ہے لیکن میں سوچ رہا تھا کہ ہم کیوں پیچھے رہیں ہمیں بھی تو عشال کو پھر سے پھپھو بنانا چاہیے نا۔"
وجدان کی بات پر زرش سرخ ہو گئی تو وہ قہقہ لگا کر ہنس دیا۔وہ صرف اسے ستا رہا تھا حالانکہ خواہش ہونے کے باوجود وہ مزید بچے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ اس کی جڑواں بیٹیوں ہانیہ اور وانیہ کے پیدا ہونے پر ڈاکٹر نے بتایا تھا کہ پھر سے ماں بننا زرش کے لیے خطرناک ہے۔اور اپنی نور کی زندگی خطرے میں ڈالنے سے پہلے وہ مرنا پسند کرتا۔
"آپ ناں بہت برے ہیں شرم کریں اب تو بوڑھے ہو گئے ہیں۔۔۔۔"
زرش نے لاڈ سے کہا اور اسکے سینے پر سر رکھ کر لیٹ گئی۔
"حیرت ہے میں تمہیں اتنی جلدی بوڑھا لگنے لگا جبکہ تم تو آج بھی مجھے ویسی ہی لگتی ہو جب سردی سے بچنے کے لیے میری پناہوں میں۔۔۔۔"
زرش نے فورا اپنا ہاتھ اسکے منہ پر رکھا اور اپنا چہرہ اسکے سینے میں چھپا گئی۔ہنستے ہوئے وجدان اسکے بالوں میں انگلیاں چلانے لگا تو کچھ دیر بعد ہی زرش نیند کی وادیوں میں اتر گئی۔
رات کا تقریباً ایک بج رہا تھا جب وجدان کی آنکھ اپنے موبائل کی آواز پر کھلی۔اس نے موبائل اٹھا کر دیکھا تو عشال کا میسج تھا۔
وہ میسج پڑھ کر ساتوں آسمان وجدان پر ایک ساتھ گرے۔
ہمارے گھر کوئی گھس آیا ہے جلدی سے پولیس کو لے کر آ جائیں بھائی۔
عشال کا میسج پڑھ کر وجدان جلدی سے اٹھا اور پولیس کو کال کر کے اپنی بندوق پکڑی اور آ کر گاڑی میں بیٹھا۔
اسکا دل خوف سے دہل رہا تھا۔عشال اور سعد کا گھر انکے گھر سے آدھے گھنٹے کی دوری پر تھا اور وجدان نے وہ مسافت دس منٹ میں پوری کی۔
اس کے وہاں پہنچتے ہی پولیس بھی وہاں پر پہنچ چکی تھی۔وجدان نے دروازہ کھولا اور اندر داخل ہوا لیکن سامنے کا منظر دیکھ کر وہ ہزاروں موت مرا۔
سامنے ہی سعد کا بے جان وجود فرش پر پڑا تھا ایک گولی انتہائی بے رحمی سے اسکے سر میں ماری گئی تھی۔
وجدان کی نظر مزید آگے بڑھی تو خون میں لت پت عشال کو دیکھ کر وہ بھاگ کر اسکے پاس گیا اور اسکا سر اپنی گود میں رکھا۔
"وہ لوگ زیادہ دور نہیں گئے ہوں گے ڈھونڈو انہیں۔"
انسپکٹر نے گھر کی حالت دیکھ سپاہیوں کو حکم دیا۔
"عشال۔۔۔"
وجدان نے اسے اپنی باہوں میں دبوچا۔جانا پہچانا لمس محسوس کر ایک پل کو عشال کی آنکھیں کھلیں اور اس نے چند سانس بھرے۔
"مم۔۔۔۔۔میں۔۔۔۔۔ہار۔۔۔۔گئی بھائی۔۔۔۔میرے معراج کا۔۔۔۔خخ۔۔۔۔خیال۔۔۔۔"
عشال اتنا ہی بول پائی اور پھر اسکی آنکھوں کے ساتھ ساتھ اسکی دھڑکنیں بھی رک رہی تھیں۔
"کس نے کیا یہ عشال بولو کس نے کیا؟"
عشال نے چند گہرے سانس بھرے اور پھر ہلکی سی آواز میں بولی۔
"مم۔۔۔ملک۔۔۔"
وہ نام سن کر وجدان ایک پل کو پتھر کا ہو گیا لیکن پھر عشال کی اکھڑتی سانسوں کو دیکھ کر بہت زیادہ بے چین ہوا۔
"عشال۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔میں کچھ نہیں ہونے دوں گا تمہیں۔۔۔۔"
وجدان نے نم آنکھوں کے ساتھ چلاتے ہوئے عشال کو باہوں میں اٹھایا اور باہر کی طرف بھاگنے لگا جب اسکی نظر سعد پر پڑی جسکے بے جان جسم کے گرد خون بکھرا پڑا تھا۔
"آفسر تم۔۔۔۔۔تم سعد کو لاؤ ہم۔۔۔۔ہم انہیں ہاسپٹل لے جائیں گے کچھ نہیں ہو گا انہیں۔۔۔۔"
وجدان بے چینی سے کہہ رہا تھا زندگی میں پہلی بار وہ اس قدر بے چین تھا کہ اپنی بات بھی نہیں کر پا رہا تھا اور ہوتا بھی کیوں نا اسکا آخری رشتہ اس وقت اسکی باہوں میں دم توڑ رہا تھا۔
"سر۔۔۔۔پلیز۔۔۔وہ دونوں مر چکے ہیں۔۔۔"
"نہیں...!!! کچھ نہیں ہوا میری بہن اور دوست کو سنا تم نے کچھ نہیں ہونے دوں گا میں انہیں۔۔۔۔"
وجدان روتے ہوئے چلایا اور پھر عشال کا وجود گاڑی میں ڈال کر وہ سعد کی جانب لپکا۔
ایک پولیس والا زارو قطار روتے ہوئے پانچ سالہ معراج کو باہوں میں اٹھا کر وہاں لایا۔
"یہ بچہ کمرے میں بیڈ کے نیچے چھپا تھا سر وہاں سے ملا مجھے یہ ٹھیک ہے بلکل۔۔۔۔"
انسپکٹر نے ہاں میں سر ہلایا اور وجدان کو بے چین دیکھ اسکا ساتھ دینے لگا لیکن وہ سب جانتے تھے کہ سب بے سود تھا۔وہ دونوں ہی یہ دنیا چھوڑ کر جا چکے تھے۔
❤️❤️❤️❤️
وجدان خاموشی سے بیٹھا اپنے ہاتھوں کو دیکھ رہا تھا۔بہت سے آنسو اس کی چوڑی ہتھیلی کو تر کر رہے تھے لیکن وجدان ہر چیز سے بے نیاز تھا۔
دو دن گزر چکے تھے ان دونوں کی موت ہوئے لیکن آج بھی اسکی آنکھوں کے سامنے بس اپنی بہن اور دوست کے خون سے سنے جسم پڑے تھے۔
"وجدان۔۔۔۔"
شایان کی آواز پر وجدان وحشت کے عالم سے باہر آیا۔
"کس نے کیا یہ سب؟"
اپنی مٹھیاں بھینچتے ہوئے شایان نے بہت زیادہ سختی سے پوچھا۔
"ملک۔۔۔"
بولتے ہوئے وجدان کی سبز آنکھیں بھی غم اور غصے کی شدت سے نم ہوئی تھیں۔
"نہیں وجدان وہ عثمان نہیں ہو سکتا۔۔۔"
شایان نے بے یقینی کی کیفیت میں کہا۔
"عشال کی زبان پر اس کا نام تھا شایان۔۔۔۔ابھی چند دن پہلے اس نے میری بہن کو دھمکی دی تھی کہ وہ اسے زندہ نہیں چھوڑے گا اور اس نے جو کہا تھا کر دکھایا ۔۔۔۔میں چھوڑوں گا نہیں اسے۔۔۔"
وجدان اپنی جگہ سے اٹھ کر وہاں سے جانے لگا تو شایان اس کی جانب لپکا۔
"نہیں وجدان ابھی نہیں پولیس کو تفتیش کر لینے دو ضروری تو نہیں کہ وہ ملک عثمان ہی ہو۔۔۔ہمیں اتنی جلدی کسی نتیجے پر نہیں پہنچنا۔"
شایان کی بات میں مصلحت دیکھ کر وجدان نے ہاں میں سر ہلایا ۔تبھی پولیس انسپکٹر ان سے ملنے کے لیے آیا۔
"کچھ پتہ چلا؟"
وجدان نے انسپکٹر کو دیکھتے ہی بے چینی سے پوچھا۔
"سر وہاں ہمیں وہ گن ملی جس سے دونوں کو گولی ماری گئی۔اس گن پر قاتل کے انگلیوں کے نشان اور شوز کے پرنٹس ملے۔۔۔"
انسپکٹر نے پوری بات بتائی تو وجدان کے ساتھ ساتھ شایان بھی بے چین ہوا۔
"کس کی گن تھی وہ؟"
انسپکٹر ایک پل کو ہچکچایا۔
"سر وہ گن،اس پر موجود فنگر پرنٹس اور جوتوں کے نشان سب عثمان ملک کے ہیں۔۔۔اس لیے ہم انہیں اریسٹ کرنے آئے ہیں۔"
شایان نے حیرت سے انسپکٹر کو دیکھا جبکہ وجدان یہ سن کر رکا نہیں۔باہر آ کر وہ سیدھا مہمانوں میں کھڑے عثمان کے پاس گیا اور اسکا گریبان ہاتھوں میں دبوچا۔
"قاتل کیوں کیا تم نے ایسا بولو کیوں لی میری بہن اور دوست کی جان بولو۔۔۔۔کیوں؟"
چلاتے ہوئے وجدان نے کئی مکے عثمان کے منہ پر مارے۔
"نہیں وجدان میری بات سنو یہ جھوٹ ہے الزام ہے مجھ پر۔۔۔"
عثمان کہنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن وجدان کچھ بھی سنے بغیر اسے مار رہا تھا۔حمنہ،جانان اور زرش سائیڈ پر کھڑی حیرت سے یہ منظر دیکھ رہی تھیں۔
تبھی شایان آگے بڑھا اور وجدان کو پکڑ کر عثمان سے دور کیا۔انسپکٹر نے آگے بڑھ کر عثمان کو ہتھکڑی پہنائی۔
"مسٹر عثمان ملک آپکو کیپٹن سعد رفیق اور انکی بیوی کے قتل کے جرم میں اریسٹ کرنے کا وارنٹ ہے میرے پاس۔"
انسپکٹر کی بات سن کر حمنہ بھاگ کر ان کے پاس آئی۔
"نہیں یہ جھوٹ ہے عثمان ایسا نہیں کر سکتے جانتی ہوں میں۔۔۔ آپ کہیں نہیں لے کے جا سکتے میرے شوہر کو"
حمنہ زاروقطار روتے ہوئے کہہ رہی تھی اور گیارہ سالہ سالار سہم کر ماں کے ساتھ لگا ہوا تھا۔
"میم پلیز کاپریٹ۔۔۔"
اتنا کہہ کر پولیس والے عثمان کو وہاں سے لے گئے جبکہ حمنہ اور سالار روتے ہوئے انکے پیچھے بھاگتے رہ گئے تھے۔
❤️❤️❤️❤️
آج ایک ہفتے کے بعد عثمان کی سنوائی تھی۔عثمان بار بار یہی کہہ رہا تھا کہ اس نے کچھ نہیں کیا لیکن حمنہ کے علاوہ کسی کو بھی اس کی بات پر یقین نہیں تھا۔
سب ثبوت عثمان کے خلاف تھے۔جس بندوق سے گولی چلائی گئی تھی وہ عثمان کی پرسنل گن تھی،اس پر عثمان کی انگلیوں کے نشان تھے۔عشال اور سعد کے گھر خون میں سنے جوتوں کے نشان بھی عثمان کے ہی تھے۔یہاں تک کہ سی سی ٹی وی میں جو گاڑی انکے گھر کے باہر رکی تھی وہ بھی عثمان کی ہی تھی۔ گاڑی میں سے نکلنے والے آدمیوں کے چہرے ڈھکے ہوئے تھے لیکن اس شخص کا حلیہ بلکل عثمان جیسا تھا۔
جج نے اس سنوائی میں کوئی سزا نہیں سنائی کیونکہ عثمان بہت بڑا سیاستدان تھا لیکن ثبوتوں کو دیکھتے ہوئے جج بھی عثمان پر جرم ثابت کرچکا تھا۔
یہ فیصلہ آنے کے بعد وہ عوام جو عثمان ملک کو سب سے اچھا حکمران ایک مسیحا سمجھتی تھی وہی اس کے خلاف ہو چکی تھی۔
اگر پوری دنیا میں کسی کو عثمان پر یقین تھا کہ وہ بے قصور ہے تو وہ صرف حمنہ تھی جو عثمان کے جیل جاتے ہی مکمل طور پر ٹوٹ چکی تھی۔
وجدان عدالت جانے کی تیاری کر رہا تھا۔آج عثمان کو جج نے اسکے کیے کی سزا سنانی تھی۔شایان اور جانان بھی انہیں کے گھر آنے والے تھے۔
وجدان پلٹا تو اسکی نظر زرش پر پڑی جو سر جھکائے آنسو بہا رہی تھی۔
"کیا ہوا زرش؟"
وجدان نے نرمی سے پوچھا تو زرش اس کے قدموں میں بیٹھی اور اسکے پاؤں پکڑ لیے۔وجدان نے فوراً جھک کر اسکے ہاتھ اپنے جوتوں سے ہٹائے۔
"یہ کیا کر رہی ہو زرش؟"
وجدان نے بے چینی سے اسے دیکھا جو پھوٹ پھوٹ کر روتی ہوئی پھر سے اسکے پاؤں تھام رہی تھی۔
"وجدان پلیز۔۔۔عثمان بھائی کو معاف کر دیں۔۔۔انہیں سزا سے بچا لیں وجدان ۔۔۔۔میری بہن مر جائے گی ۔۔۔"
زرش پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے کہہ رہی تھی۔وجدان اس کے ہاتھ چھوڑے اور کھڑا ہوا۔
"اور اس نے جو میری بہن کی جان لے لی اسکا کیا زرش؟ میرا آخری رشتہ تھی وہ اور اس ظالم نے دو نہیں زرش تین زندگیاں لی ہیں۔۔۔"
وجدان نے غصے سے کہا اور زرش اٹھ کر بس سر جھکاتے ہوئے رو رہی تھی۔
"میں اسے کبھی معاف نہیں کروں گا زرش کبھی بھی نہیں۔۔۔۔"
وجدان اتنا کہہ کر وہاں سے جانے لگا۔
"میری خاطر وجدان۔۔۔اگر آپ مجھ سے تھوڑی سی بھی محبت کرتے ہیں تو اس محبت کا واسطہ ہے آپ کو۔۔۔"
زرش کی بات پر وجدان نے شکوہ گناہ نگاہوں سے اسے دیکھا۔
"تمہیں رحم نہیں آتا زرش کیسے تم اس بات کے لئے مجھے اپنی محبت کا واسطہ دے سکتی ہو؟"
زرش نے اپنا سر شرمندگی سے جھکایا لیکن وہ بھی کیا کرتی اپنی بہن کو اس کے شوہر کے بنا پل پل پر مرتے ہوئے بھی تو نہیں دیکھ سکتی تھی۔
"آپ جو کہیں گے وجدان میں وہی کروں گی لیکن پلیز عثمان بھائی کو معاف کر دیں انہیں سزا سے بچا لیں ورنہ میری آپی مر جائیں گی وجدان۔۔۔۔"
وجدان نے بے بسی سے اسے دیکھا پھر اپنا سر انکار میں ہلا دیا۔
"آپکو میری قسم وجدان۔۔۔"
زرش کی اس بات پر وجدان رکا اور غصے سے اپنا ہاتھ شیشے کی کھڑکی میں مار کر شایان کو دیکھا جو بے بسی سے کھڑا انہیں دیکھ رہا تھا۔وہ وجدان کو کیا کہتا اسکی زبان پر تو جانان پہلے ہی اپنی محبت کے واسطے دے کر تالے لگا چکی تھی۔
"تم نے دیکھا یہ کیا کہہ رہی ہے شایان۔۔۔اسے کہہ دو کہ میں اس کی یہ بات کبھی بھی نہیں مانوں گا۔۔۔"
وجدان نے غصے سے کہا تو شایان نے اپنا سر جھکا لیا۔
"حمنہ کی حالت سچ میں بہت خراب ہے وجدان اگر عثمان کو کچھ ہوا تو وہ مر جائے گی۔۔۔پھر ہم سالار سے بھی اسکے ماں باپ کو چھین کر اسے معراج بنا دیں گے وجدان۔۔۔"
شایان کی بات پر وجدان نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔
"اس نے سعد کی جان لی ہے شایان کیا کچھ نہیں کیا سعد نے تمہارے لیے اور آج تم اس کا بدلہ اس طرح سے چکاؤ گے اس کے قاتل کو چھوڑ کر۔۔۔۔؟"
وجدان کے بے یقینی سے پوچھنے پر شایان نے اپنا سر جھکا لیا۔
"اگر میری جگہ سعد ہوتا تو وہ بھی یہی کرتا۔۔۔"
شایان کی آواز غم و غصے سے تر تھی۔وجدان نے اب کی بار بے بسی سے پاس پڑی میز کو پٹخ کر توڑ دیا۔
بہت دیر وہ غصے سے چلاتا رہا پھر اس نے مڑ کر زرش کو دیکھا جو سہم کر نم آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
"اسکے لیے تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گا نور۔۔۔مجھے اتنا بے بس کرنے کے لئے میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گا۔۔۔۔"
وجدان کی بات پر زرش کانپ کر رہ گئی اس نے تڑپ کر وجدان کے قریب ہونا چاہا تو وجدان نے اپنا ہاتھ اٹھا کر اسے وہیں روک دیا۔
"حمنہ سے کہہ دو کہ میں نے اس کے شوہر کو اپنی بہن کا خون معاف کیا لیکن اس کے بعد تمہارا یا ہمارے گھر سے کسی کا بھی عثمان ملک یا اس سے جڑے کسی شخص سے کوئی تعلق نہیں رہے گا۔۔۔۔اور اگر تم نے ان سے ملنے کی کوشش کی تو جان لے لوں گا اپنی۔۔۔"
اتنا کہہ کر وجدان وہاں سے چلا گیا اور شایان نے بھی ایک نگاہ سر جھکا کر روتی ہوئی جانان کو دیکھا۔
"یہی اصول تم پر بھی لاگو ہوں گے جانان یاد رکھنا۔۔۔"
شایان اتنا کہہ کر وہاں سے چلا گیا اور جانان زرش کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔
❤️❤️❤️❤️
وجدان کے کیس واپس لینے کے بعد عثمان آزاد تو ہو چکا تھا لیکن اس کا پورا کریئر اس کی عزت سب خاک میں مل چکا تھا۔
جو لوگ اسے مسیحا سمجھتے تھے اب وہ ان کے لئے ایک قاتل بن چکا تھا اور اس بات نے عثمان ملک کو مکمل طور پر توڑ دیا تھا۔
"عثمان۔۔۔"
حمنہ نے اسے پھوٹ پھوٹ کر روتے دیکھا تو تڑپ کر اس کے پاس بیٹھی تھی۔عثمان نے اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھام لیا۔
"کیا تم بھی باقی سب کی طرح مجھے قاتل سمجھتی ہو حمنہ؟"
حمنہ نے فوراً انکار میں سر ہلا دیا۔
"میں جانتی ہوں عثمان کہ آپ نے کچھ بھی نہیں کیا ساری دنیا تو کیا اگر آسمان سے فرشتہ اتر کر بھی آپ پر انگلی اٹھائے تو میں اس پر بھی یقین نہیں کروں گی۔۔۔۔آپ فکر مت کریں عثمان برا وقت ہے انشاءاللہ ٹل جائے گا کوئی آپ کے ساتھ ہو نہ ہو میں اور سالار ہمیشہ آپ کے ساتھ ہیں۔"
اتنا سننا تھا عثمان نے حمنہ کو خود میں بھینچ لیا۔
"میں سچ میں تمہارے قابل نہیں جان جہاں نہ جانے ایسا کون سا میرا عمل تھا جس کے بدلے میرے رب نے تمہیں مجھے دیا۔۔۔۔"
تبھی عثمان کا خاص آدمی خادم اجازت لے کر کمرے میں داخل ہوا جو عثمان کی پارٹی کا خاص نمائندہ بھی تھا۔
"کیا ہوا خادم سب ٹھیک ہے نا؟"
خادم نے انکار میں سر ہلایا۔
"نہیں سر عوام کے ساتھ ساتھ پارٹی کے نمائندے بھی آپ کے خلاف ہو چکے ہیں وہ تو شائید اب آپ کو پارٹی کا سربراہ بھی نہ رہنے دیں۔۔۔"
اس بات پر حمنہ نے پریشانی سے عثمان کی طرف دیکھا۔
"میں ایسے اس الزام کو اپنی زندگی تباہ نہیں کرنے دوں گا ڈھونڈ لوں گا میں اصلی قاتل کو نہیں چھوڑوں گا اسے۔۔۔"
عثمان نے اپنی مٹھیاں بھینچ کر کہا۔
"میرے خیال سے یہ وقت کا تقاضہ نہیں سر۔۔۔"
"تو کیا کروں میں خادم؟"
"آپ کسی باہر کے ملک چلے جائیں سر ورنہ یہاں نہ لوگ آپ کو چین سے جینے دیں گے نہ ہی آپ کے گھر والوں کو۔"
عثمان نے انکار میں سر ہلایا۔
"میں ایسے بھاگوں گا نہیں۔۔۔۔خود کو بے قصور ثابت کروں گا میں۔"
عثمان نے اپنی مٹھیاں بھینچ کر کہا تو حمنہ نے اسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا۔
"میرے خیال میں سر آپ کو جوش سے نہیں ہوش سے کام لینا چاہیے۔چھوٹا سا بیٹا ہے آپکا آپ کو اس کے بارے میں سوچنا چاہیے۔"
خادم نے سر جھکا کر کہا۔عثمان نے حمنہ کی طرف دیکھا تو اس نے بھی ہاں میں سر ہلایا۔وہ اپنا کل جہان کھونا نہیں چاہتی تھی۔
"ٹھیک ہے تم ہمارے کینیڈا جانے کے انتظامات پورے کر دو خادم میں سالار کو اس ماحول سے نکالنا چاہتا ہوں۔"
خادم نے ہاں میں سر ہلایا اور وہاں سے چلا گیا۔
"سالار کو کیسے مناؤں گی عثمان وہ تو جنت سے اتنی دور جانے کے لیے کبھی نہیں مانے گا۔۔۔۔"
حمنہ نے نم آنکھوں کے ساتھ کہا۔عثمان نے ہاتھ بڑھا کر اس کے آنسو پونچھے۔
"اس سے کہنا کہ اسکا باپ اب اس ملک کے قابل نہیں رہا۔۔۔وہ میرا بیٹا ہے حمنہ سمجھ جائے گا۔"
عثمان نے تلخی سے کہا اور وہاں سے اٹھ کر چلا گیا۔ان سب کی زندگیاں نئے موڑ لے چکی تھیں لیکن ابھی تو منزل پر پہنچنے کا سفر شروع ہوا تھا۔
❤️❤️❤️❤️
شایان،وجدان اور سعد تینوں آرمی میں تھے اور بہت زیادہ اچھے دوست بھی۔وجدان کی بیوی زرش اور شایان کی بیوی جانان آپس میں بہنیں تھیں جبکہ سعد کی بیوی عشال وجدان کی بہن تھی۔ان سب کے علاؤہ جانان اور زرش کی ایک اور بڑی بہن تھی حمنہ،جسکی شادی ایک سیاستدان عثمان ملک سے ہوئی تھی۔
ظلم کے خلاف لڑنا اور ظالم کو سزا دینا وجدان کی بہن عشال کا جنون تھا اور اسی کے زیر اثر وہ ایک گینگسٹر سکندر کا روپ ڈھال کر بہت سے گنہگاروں کو سزا دے چکی تھی۔
وجدان کی بہادر اور طاقتور بہن اسکا غرور تھی لیکن اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ اسکی بہادری کا یہ انجام نکلے گا کہ وہ خود کی اور سعد کی جان کی گنوا دے گی۔
چند سال پہلے تک وجدان،شایان،عثمان اور سعد اپنے بیوی بچوں کے ساتھ اس چھوٹے سے خاندان میں بہت خوش تھے لیکن اب انکی زندگیوں میں بہت بڑا طوفان آ چکا تھا۔
"وجدان۔۔۔۔"
شایان نے وجدان کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر اسے پکارا۔
"ہوں۔۔۔۔"
وجدان نے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے پوچھا۔
"کیا میں تم سے کچھ مانگ سکتا ہوں؟"
"ہاں کہو۔۔۔"
وجدان نے شایان کو دیکھا جو سر جھکائے تھا لیکن وہ اسکی آواز میں نمی کو محسوس کر سکتا تھا۔
"تم معراج کو مجھے دے دو وجدان پلیز۔۔۔۔"
شایان کی مانگ پر وجدان خاموش ہو گیا۔شایان کی مانگ بھی تو بہت زیادہ تھی معراج وجدان کے پاس عشال کی آخری نشانی تھا۔
"میں جانتا ہوں کہ وہ تمہاری اکلوتی بہن کی آخری نشانی ہے لیکن یار وہ سعد کی تو نشانی بھی ہے نا۔۔۔۔۔۔"
شایان کی آواز آنسوؤں سے رندھ چکی تھی۔
"میں وعدہ کرتا ہوں کہ اپنی جنت سے زیادہ میں معراج سے پیار کروں گا جان سے زیادہ اسکا خیال رکھوں گا۔۔۔میری کوئی اور اولاد بھی نہیں ہو گی وجدان وعدہ کرتا ہوں اپنا سارا پیار صرف معراج کے لیے رکھوں گا۔۔۔۔لیکن پلیز یار میرے دوست کی نشانی مجھے سونپ دو۔۔۔۔"
شایان ہاتھ جوڑ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دیا اور اسے اس طرح روتے دیکھ وجدان کی پلکیں کرب سے نم ہوئیں۔
ہر کوئی اس بات سے واقف تھا کہ شایان اور سعد چاہے صرف دوست تھے لیکن ان کے درمیان محبت بھائیوں سے بھی بڑھ کر تھی۔
"معراج آج سے تمہارا بیٹا ہے شایان۔۔۔۔وہ تمہارے پاس ہی رہے گا۔۔۔۔کیونکہ میں جانتا ہوں کہ تم اسکا خیال مجھ سے بھی بڑھ کر رکھو گے۔۔"
وجدان نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا تو شایان نے تشکرانہ نگاہوں سے وجدان کو دیکھا۔
"شکریہ دوست"
شایان نم آنکھوں سے مسکرایا۔اب ان کی زندگی کونسے موڑ لے گی یہ بس قسمت کو ہی پتہ تھا۔
❤️❤️❤️❤️